کہاں ہم رہے پھر کہاں دل رہے گا
کہاں ہم رہے پھر کہاں دل رہے گا
اسی طرح گر تو مقابل رہے گا
کھلی جب گرہ بند ہستی کی تجھ سے
تو عقدہ کوئی پھر نہ مشکل رہے گا
دل خلق میں تخم احساں کے بو لے
یہی کشت دنیا کا حاصل رہے گا
حجاب خودی اٹھ گیا جب کہ دل سے
تو پردہ کوئی پھر نہ حائل رہے گا
نہ پہنچے گا مقصد کو کم ہمتی سے
جو سالک طلب گار منزل رہے گا
نہ ہوگا تو آگاہ عرفان حق سے
گر اپنی حقیقت سے غافل رہے گا
خفا مت ہو بیدارؔ اندیشہ کیا ہے
ملا گر نہ وہ آج کل مل رہے گا
- کتاب : دیوان بیدارؔ مرتبہ: جلیل احمد قدوائی (Pg. 3)
- Author : میر محمد بیدارؔ
- مطبع : ہندوستانی اکادمی الہ آباد (1937)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.