کہوں کیا وحشت ویرانہ پیمائی کہاں تک ہے
کہوں کیا وحشت ویرانہ پیمائی کہاں تک ہے
کہ وسعت میرے صحرا کی مکاں سے لا مکاں تک ہے
اگر چاہوں نظام دہر کو زیر و زبر کر دوں
مرے جذبات کا طوفاں زمیں سے آسماں تک ہے
تیرے مٹنے میں اے دل زندگی کا راز مضمر ہے
ہراس نیتی آغاز وقت امتحاں تک ہے
ستاتا ہے مجھے صیاد ظالم اس لیے شاید
کہ رونق اس کے گلشن کی مرے شغل فغاں تک ہے
فروغ حسرت و غم سے جگر میں داغ رکھتا ہوں
مرے گلشن کی زینت دور ہنگام خزاں تک ہے
ولیؔ شامل نہیں ہو تم ابھی رندوں کے حلقے میں
تمہاری بادہ نوشی محفل پیر مغاں تک ہے
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 189)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.