عجب کہ یاد میں وہ زلف مشک سا نہ رہے
عجب کہ یاد میں وہ زلف مشک سا نہ رہے
وہ کون سر ہے کہ جس سر میں یہ ہوا نہ رہے
خیالِ یار کا رہنا ہے چشمِ گریاں سوں
جہاں کہ چشمہ نہ جاری ہو کارواں نہ رہے
جو وصل ہو بھی میسّر تو کیا کہوں احوال
دو چار یار کے منہ میں میری زباں نہ رہے
عجب کہ موسم پیری میں خوابِ غفلت ہو
کہ صبح ہوئے سرا بیچ کارواں نہ رہے
جسے شعور ہے کچھ بھی وہ اس قدر جانے
قضا بھی کچھ ہے اگر بندۂ رضا نہ رہے
یہ بادیۂ محبّت میں بے دلیل نہ جا
کہ کارواں کو خطر ہے جو رہنما نہ رہے
خطر ہے بحرِ خرد میں اگر جنوں نہ ہوئے
جہاز غرق ہو اس میں گر اس میں ناخدا نہ رہے
- کتاب : بہارمیں اردو کی صوفیانہ شاعری (Pg. 121)
- Author : محمد طیب ابدالی
- مطبع : اسرار کریمی پریس الہ آباد (1988)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.