کیا ایک نظر کی زحمت بھی اے جانِ جہاں منظور نہیں
کیا ایک نظر کی زحمت بھی اے جان جہاں منظور نہیں
میں چاہے کسی قابل نہ سہی تیرے تو کرم سے دور نہیں
ہر چند فقط مختار نہیں ہر چند فقط مجبور نہیں
اک آہ تو بھر لوں اپنی خوشی اتنا بھی مجھے مقدور نہیں
ہاں حق تو ادا کر لیتا ہوں اے دوست ترے ہر جلوے کا
لیکن میں دیکھوں تیرے سوا توہین نظر منظور نہیں
ہے جتنا تقرب ان سے جسے اتنا ہی کسا جاتا ہے اسے
آئین محبت سب سے نئے پھر کوئی نیا دستور نہیں
یہ داغ محبت ہے جب تک تاریک نہیں ماحول مرا
ہر شب ہے شب مہ میرے لئے کوئی بھی شب دیجور نہیں
احوال دروں کی انساں کے غماز نگاہیں ہوتی ہیں
آنکھوں میں نظر مستور سہی آنکھوں سے نظر مستور نہیں
وہ راہ نورد شوق ہوں میں مشتاق ہیں راہیں خود میری
جب ہاتھ میں دامن ہے ان کا پھر کوئی بھی منزل دور نہیں
دل جس کا نہ ہو اندھا اس کی آنکھیں ہوں اگر بے نور تو کیا
ہاں اس پہ مگر کچھ غور کرو دل ہی تو کہیں بے نور نہیں
جو چاہیں کہیں یہ دیوانے آئین وفا سے بیگانے
مشرک ہوں اگر قدموں پہ ترے سجدوں کے لئے مامور نہیں
جب میں ہی نہ ہوں ہوتا ہے کوئی پاتا ہے جہاں کھوتا ہے کوئی
کیا اس میں مقام حیرت ہے یا جلوہ نہیں یا طور نہیں
بے وجہ نہیں یہ اشک رواں ملتی ہیں محبت کی کڑیاں
تم پاس بھی ہو کر پاس نہیں ہم دور بھی رہ کر دور نہیں
ہر گھاؤ ہے کاملؔ مژدۂ نو ہر داغ حیات غم کی نوید
جینے کا مزہ کیا خاک ملے زخموں سے اگر دل چور نہیں
- کتاب : واردات کامل دیوان کامل (Pg. 133)
- Author : کامل شطاری
- مطبع : کامل اکیڈمی (1962)
- اشاعت : 4th
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.