کرتا ہوں اب کے بار میں توبہ سے توبہ یار
کرتا ہوں اب کے بار میں توبہ سے توبہ یار
کس واسطے کہ ٹوٹی ہے توبہ ہزار بار
جل ہی گیا فراق تو آتش سے ہجر کی
آنکھوں میں مری رہ نہ سکا یارو انتظار
برباد میری خاک ہوئی واں نہ لے گئی
دل میں مرے رہے گا صبا سے یہی غبار
ساغر تجھے قسم ہے سر خم کی جلد بھر
کرتا ہے دست گیر وگرنہ مجھے خمار
اس تنگ نائے دھر سے باہر قدم کو رکھ
ہے آسماں زمیں سے پرے وسعت مزار
مرہم لگا نہ داغ کو جراح مہر کر
یہ داغ تازہ میرے کسی کی ہیں یادگار
چلتا ہوں راہ عشق میں آنکھوں سے مثل اشک
پھوٹیں کہیں یہ آبلے سرسبز ہوویں خار
آتش سے گل کی داغ مگر عشقؔ کھائے تھے
آئی جو پیشوا تجھے لینے کو نو بہار
- کتاب : کلیات رکن الدین عشقؔ اور ان کی حیات و شاعری (Pg. 100)
- Author : قریشہ حسین
- مطبع : دی آزاد پریس، پٹنہ (1979)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.