ہے منور رخ پر نور سے سب گھر باہر
ہے منور رخ پر نور سے سب گھر باہر
ایک سا جلوہ خورشید ہے اندر باہر
بزم خلوت میں اگر چھپ کے حیا آنے لگی
بڑھ کے آواز دی شوخی نے کہ باہر باہر
سوزش دل کو بجھاتی نہیں چشم گریاں
گھر پھنکا جاتا ہے بہتا ہے سمندر باہر
ہیں سر راہ بچھائے ہوئے آنکھیں مشتاق
بولے وہ ظلم ہے نکلے کوئی کیوں کر باہر
جیتے جی نقش قدم بن کے جو بیٹھے نہ اٹھے
کوچۂ یار سے ہم نکلے ہیں مر کر باہر
جذبۂ شوق شہادت جو دکھائی بسمل
تیغ کاٹھی سے نکل آئی تڑپ کر باہر
بزم خلوت میں وہ سوتے ہیں دوپٹہ تانے
جلوۂ حسن خدا داد ہے اندر باہر
پردۂ ابر سے نکلا ہے مہ نو کوثرؔ
یا ہوا ہے میاں سے اس ترک کا خنجر باہر
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 83)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.