خیال شب غم سے گھبرا رہے ہیں
خیال شب غم سے گھبرا رہے ہیں
ہمیں دن کو تارے نظر آ رہے ہیں
وہ کچھ غیر سے وعدہ فرما رہے ہیں
مرے سر کی جھوٹی قسم کھا رہے ہیں
یہ ہیں شوخیاں اپنی تصویر دے کر
شب وعدہ وہ ہم کو بہلا رہے ہیں
نہ افتاد کچھ پیش آئے الٰہی
ذرا ہم چمن کی ہوا کھا رہے ہیں
اٹھائیں نہ فتنہ یہ محشر میں کوئی
حسیں بے چھوئے چھیڑے جھنجھلا رہے ہیں
دم وعظ کیسے مزے میں ہیں واعظ
بھرے جام کوثر کے چھلکا رہے ہیں
یہ انسان بن جائیں کچھ ساتھ رہ کر
فرشتوں کو ہم راہ پر لا رہے ہیں
نہ لوں راہ مے خانہ کس طرح واعظ
یہ بادل جو سر پر مرے چھا رہے ہیں
چنیں گے وہ افشاں سر بام کب تک
شب وعدہ کیوں تارے گنوا رہے ہیں
گلے گل ملیں گے وہ مینائے مے سے
جو پیتے ہوئے آج شرما رہے ہیں
لگا دو ذرا ہاتھ اپنی گلی میں
جنازہ لیے دل کا ہم جا رہے ہیں
یہ الجھے ہیں رندوں سے کیا شیخ صاحب
بڑھاپے میں کیوں ڈاڑھی رنگوا رہے ہیں
قیامت بچھی جاتی ہے ہر قدم پر
یہ کون آ رہا ہے وہی آ رہے ہیں
دعا دے رہا ہوں یہ دیوانگی میں
چنیں پھول تنکے جو چنوا رہے ہیں
کمر سیدھی کرنے ذرا میکدے میں
عصا ٹیکتے کیا ریاضؔ آ ہے ہیں
- کتاب : ریاض رضواں (Pg. 312)
- Author : ریاضؔ خیرآبادی
- مطبع : کتاب منزل،لاہور (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.