جان سے جاؤں میں درد اتنا بڑھاتے بھی نہیں
جان سے جاؤں میں درد اتنا بڑھاتے بھی نہیں
داروئے درد جو پوچھوں تو بتاتے بھی نہیں
کیا سے کیا ہو گئی صورت انہیں معلوم بھی نہیں
چارہ گر ہیں کہ لگی دل کی بجھاتے بھی نہیں
میری بر گشتہ نصیبی کا برا ہو یا رب
کشش عشق بھی ہے اور وہ آتے بھی نہیں
سادگی سے جو نہ لیں پھول سمجھ کر ان کو
گل داغ جگر ایسوں کو دکھاتے بھی نہیں
ہنس کے وہ پوچھتے بھی ہیں میرے رونے کا سبب
اور برقع رخ روشن سے اٹھاتے بھی نہیں
ضبط میں جان کا ڈر آہ میں رسوائی کا
اب تو کہتے بھی نہیں بنتی چھپاتے بھی نہیں
ان کی ہرجائی بھی مشہور زمانے میں ہے
اور نقش قدم ان کا کہیں پاتے بھی نہیں
کیا خبر تھی کہ وہ بت دشمن ایماں ہو گا
ایسے کافر سے کہیں دل تو لگاتے بھی نہیں
کبھی خاموش بھی ہیں خضرؔ کبھی نالاں بھی
اور دل پر جو گزرتی ہے بتاتے بھی نہیں
- کتاب : ماہ عید (Pg. 49)
- Author : سید احمد انور
- مطبع : مطبع اتحاد، بہار (1924)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.