نہ گھبرانا دل مہجور تاریکی سے تربت کی
نہ گھبرانا دل مہجور تاریکی سے تربت کی
ارے ناداں حقیقت میں وہی ہے رات وصلت کی
بجھا دی شمع صرصر نے جو مجھ بے کس کے تربت کی
یہ شوخی تو نہ تھی اس آتشیں رو کی شرارت کی
کبھی نالہ زباں پر ہے کبھی آہ و فغاں لب پر
الٰہی خیر کرنا اس دل بیمار الفت کی
یہی کہہ کہہ کے یہ پیر فلک برباد کرتا ہے
نشانی کیوں رہے باقی کسی بیکس کی تربت کی
لبوں تک آ گئی ہے جان تم کیسے مسیحا ہو
خبر لیتے نہیں اللہ بیمار محبت کی
گزر تیرا ہوا ہے آج شاید اس کے کوچہ میں
صبا خوشبو نہیں بے وجہ گلہائے مسرت کی
کریں آباد وہ گھر غیر کا ہر روز جا جا کر
یہاں تک ہائے پہونچی اب خرابی میری قسمت کی
اگر دے کوئی دل اپنا تو خود سر کاٹ کر رکھ دے
یہ ہے قانون الفت میں سزا جرم محبت کی
بتوں سے دل لگا کے اب تو یہ حالت ہوئی آصفؔ
کہ غش آتا ہے مجھ کو دیکھ کر صورت محبت کی
- کتاب : ماہ عید (Pg. 14)
- Author : سید احمد انور
- مطبع : مطبع اتحاد، بہار (1924)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.