عدم سے یہاں آکے کیا کیا نہ دیکھا
عدم سے یہاں آکے کیا کیا نہ دیکھا
جو کچھ دیکھنا تھا وہ اصلا نہ دیکھا
زمانہ میں ہم نے بھی کیا کیا نہ دیکھا
نہ تجھ سا کچھ اے چشمِ بینا نہ دیکھا
نہیں بے وفا تو ہے اے عمرِ رفتہ
کسی کو یہاں ہم نے اپنا نہ دیکھا
کہاں دل کی صورت کہاں آئینہ کی
یہ دیکھو اسے اس نے اتنا نہ دیکھا
گئے سوانگ مجنوں کا بھی ہم بناکر
یہ دیکھو تماشا تماشا نہ دیکھا
نہیں جز غرور اس کے خط کی عبارت
کوئی حرف بھی ہم نے دبتا نہ دیکھا
برنگِ حنا دیکھ کر پاؤں ا س کے
جیا جب تلک منہ کسی کا نہ دیکھا
ترے روئے روشن پہ اے مہرِ تاباں
بجز تیرے جلوے کے پروانہ دیکھا
کسے زیب دےہے تغافل کا شکوہ
وہ مخمور تھا گر نہ دیکھا نہ دیکھا
لگی ہم سے رسوائی اب تنگ کرنے
جہاں میں کوئی ہمسا رسوا نہ دیکھا
فسردہ دلی ان سے چھائی جہاں میں
کہیں عشق بازی کا چرچا نہ دیکھا
غضب تو بھی دلکش ہے اے بحرِ الفت
ترا کوئی ڈوبا اچھلتا نہ دیکھا
ہوا آئینہ اس کے کس منہ سے آگے
کوئی سادہ لوح اور ایسا نہ دیکھا
تجھی میں تو وہ جلوہ فرما ہے اے دل
جسے تونے غفلت سے سمجھا نہ دیکھا
رہے بے ثمر آہ چوں سرو معروفؔ
کچھ اس زندگانی کا ثمرہ نہ دیکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.