چلا ہے اول راحت طلب کیا شادماں ہو کر
زمین کوئے جاناں رنج دے گی آسماں ہو کر
اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر
جواب نامہ کیا لایا تن بے جاں میں جان آئی
گیا یاں سے کبوتر واں سے آیا مرغ جاں ہو کر
کیا غیروں کو قتل اس نے موئے ہم رشک کے مارے
اجل بھی دوستو آئی نصیب دشمناں ہو کر
پھرا صد چاک ہو کر کوچۂ کاکل سے دل اپنا
عزیزو یوسف گم گشتہ آیا کارواں ہو کر
نہانے میں جو لہراتی ہے زلف یار دریا میں
تڑپنے لگتی ہیں پانی پہ موجیں مچھلیاں ہو کر
ادا سے جھک کے ملتے ہو نگہ سے قتل کرتے ہو
ستم ایجاد ہو ناوک لگاتے ہو کماں ہو کر
وزیرؔ اس کا ہوں میں شاگرد جس کو کہتے ہیں منصف
لیا ملک معانی بادشاہ شاعراں ہو کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.