اے صنم کہہ دے مجھے اب بات ساری صاف صاف
اے صنم کہہ دے مجھے اب بات ساری صاف صاف
جس طرح آوے نظر صورت تمہاری صاف صاف
جو تیری آنکھوں کے آگے آ گیا بسمل ہوا
مارتے ہو کھینچ کر کیسی کٹاری صاف صاف
چاہے تو تلوار لے کر سر ہمارا کاٹ لے
لیکن ہم دل سے نہ دیں گے غم گساری صاف صاف
اے بت بیچوں ہے کس کی تجھ سے کہہ چون و چرا
ہے ڈراتی یہ نگاہ برچھی تمہاری صاف صاف
اک تیری الفت سے مجھ کو ہے ملامت چار سو
دوسرا فرقت سے ہر دم بے قراری صاف صاف
چشم گریاں سینہ بریاں دل تپاں اور چہرہ زرد
روز و شب رہتی ہے مجھ کو آہ و زاری صاف صاف
دور کر دل سے دغا اور مجھ سے مل جا بے حجاب
ہے تیری ہجرت سے ہر دم انتظاری صاف صاف
ہم تیرے ہیں ہم نشیں اور ہم تیرے ہم راز ہیں
ہم سے کر ہمدم ہمیشہ ہم کناری صاف صاف
پی کے بس جام محبت ہو گیا خود مست میں
آ گئی آنکھوں میں میری بس خماری صاف صاف
دیں دیا اور دل دیا دیگر دیا جان و جہاں
تجھ سے ہٹ کر کس سے کیجے دوست داری صاف صاف
دور رہنے سے ہے دکھ اور پاس رہنا ہے محال
چھوڑنی مشکل ہوئی رغبت پیاری صاف صاف
عارفاؔ وہ شاہ خوباں مجھ کو یوں کہنے لگا
خود سے خالی ہو کے کر مرضی ہماری صاف صاف
- کتاب : دیوان عارفؔ (Pg. 54)
- Author : کشن سنگھ عارفؔ
- مطبع : چشمۂ نور پریس، امرتسر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.