میرا بخت خوابیدہ بیدار ہو
میرا بخت خوابیدہ بیدار ہو
تیرا خواب میں مجھ کو دیدار ہو
جہاں گر ہو دشمن ہے کیا فکر و غم
اگر غم گساری پہ غم خوار ہو
دل مضطرب استقامت کرے
اگر پاس میرے وہ دل دار ہو
میں ہوں بیچتا دھرم و ایمان و دیں
اگر کوئی آ کر خریدار ہو
اگر منہ چھپا لے وہ مہر منیر
نمایاں جہاں پر شب تار ہو
اگر ایک پل ہو جدائی تیری
تو صحرا مجھے سارا گھر بار ہو
اگر وہ پلاوے شراب وصال
تو کیا اس کا عاشق نہ مے خوار ہو
برابر ہیں گر پاس ہو گل بدن
چمن ہو کہ جنگل چہ گلزار ہو
جو جائے تو جائے کوئی جاں گداز
جہاں چار سو تیر و تلوار ہو
میرا دل بھی کیا کوئی منصور ہے
نہیں ڈر اسے گرچہ سو وار ہو
گیا قیس مجنوں ہوا دشت میں
موا کوہ کن جاں سے بیزار ہو
چلو اک نئی بات کر کے یہاں
تیرا جس سے اذکار ہر بار ہو
جہاں ہو وہاں جا کے اس سے ملوں
ہوا کیا جو قلزم سے ہر پار ہو
حکیموں سے کیا اس کی ہوگی دوا
جو عشق اور محبت کا بیمار ہو
جلے یا مرے یا کہیں ڈوب جائے
وہ لیکن نہ فرقت کا آزار ہو
غضب ہے کہ ظالم ہو یوں خندہ زن
ادھر چشم مظلوم خوں بار ہو
ہے کیا خوف عارفؔ کو محشر کے دن
وکالت پہ جب پیر مختار ہو
- کتاب : دیوان عارفؔ (Pg. 72)
- Author : کشن سنگھ عارفؔ
- مطبع : چشمۂ نور پریس، امرتسر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.