مل گیا ہے دل کسی دیدار سے
مل گیا ہے دل کسی دیدار سے
ہو گیا بیزار اب گھر بار سے
جب سے صحبت ہو گئی مے خوار سے
تب سے ہم پھرتے ہیں بس سرشار سے
بندھ گیا جو زلف کی اک تار سے
چھٹ گیا وہ مومن اور کفار سے
دل میرا ہے مثل بلبل نعرہ زن
مثل بو گل رو گیا گلزار سے
ہے وہ قاتل قتل عاشق پر کھڑا
مار دے گا خوں بھری تلوار سے
درد دوری وصل بن جاتا نہیں
موت بہتر جان اس آزار سے
کوچۂ جاناں میں جانا ہے محال
خوف ہے اس سنگ دل خونخوار سے
دم لیا عیسیٰ نے جا کر چرخ پر
اس طرح بھاگا تیرے بیمار سے
دولت عشق خدا حاصل ہو گر
کچھ نہیں اچھا دگر اس کار سے
ہے تعجب عارفاؔ دنیا کے بیچ
بھاگتا ہے دل بھلے کردار سے
- کتاب : دیوان عارفؔ (Pg. 79)
- Author : کشن سنگھ عارفؔ
- مطبع : چشمۂ نور پریس، امرتسر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.