کسی زہرہ شمائل کا تصور ہے مرے دل میں
کسی زہرہ شمائل کا تصور ہے مرے دل میں
منجم یا قمر کا ہے گزر خورشید منزل میں
قدم رنجہ تو فرماؤ کوئی رہنے نہ پائے گا
نکل جائیں گی جتنی آرزوئیں ہیں مرے دل میں
پئے گی خوب اے قاتل غضب کا رنگ لائے گی
لگائی ہے جو مہندی پیس اس کو خون بسمل میں
یہی حیرت کا عالم ہے تو نظارہ کہاں مجنوں
نکل بھی آئے محمل سے تو پھر لیلیٰ ہے محمل میں
دوئی اٹھ جائے تو جھگڑا کہاں شیخ و برہمن کا
بت آئیں سجدے کرتے شوق سے اس کعبۂ دل میں
تڑپتا ہے دل صیاد بھی اس کے تڑپنے پر
قیامت کا اثر ہے اضطراب مرغ بسمل میں
یہ بیماری محبت کی کوئی نیرنگ ہے اے دل
جہاں آیا مسیحا درد دونا ہو گیا دل میں
دہان زخم نے کس کس مزے سے اس کو چوسا ہے
لب شیریں کی لذت ہے زبان تیغ قاتل میں
جدا ہوتی نہیں گردن سے قاتل زور کرتا ہے
زبان تیغ نے لذت یہ پائی خون بسمل میں
ذرا محمل سے ہٹ کر خاک اڑا او بے ادب مجنوں
خیال اتنا تو کرنا چاہیے کہ کون محمل میں
لگا کر وار اوچھا پھر نہ دیکھا اس طرف ہم نے
قضا روتی رہی بیٹھی ہوئی پہلوئے بسمل میں
نہ آمادہ ہوا ہو کوئی غمزہ اس کی شوخی پر
الٰہی خیر بجلی سی چمکتی ہے مرے دل میں
امیرؔ اس کی تجلی گاہ ہے دنیا جو آنکھیں ہوں
وہی گل ہے گلستاں میں وہی ہے شمع محفل میں
- کتاب : کلام امیر مینائی (Pg. 98)
- Author : امیر مینائی
- مطبع : مشورہ بک ڈپو، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.