Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

کسی زہرہ شمائل کا تصور ہے مرے دل میں

امیر مینائی

کسی زہرہ شمائل کا تصور ہے مرے دل میں

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    کسی زہرہ شمائل کا تصور ہے مرے دل میں

    منجم یا قمر کا ہے گزر خورشید منزل میں

    قدم رنجہ تو فرماؤ کوئی رہنے نہ پائے گا

    نکل جائیں گی جتنی آرزوئیں ہیں مرے دل میں

    پئے گی خوب اے قاتل غضب کا رنگ لائے گی

    لگائی ہے جو مہندی پیس اس کو خون بسمل میں

    یہی حیرت کا عالم ہے تو نظارہ کہاں مجنوں

    نکل بھی آئے محمل سے تو پھر لیلیٰ ہے محمل میں

    دوئی اٹھ جائے تو جھگڑا کہاں شیخ و برہمن کا

    بت آئیں سجدے کرتے شوق سے اس کعبۂ دل میں

    تڑپتا ہے دل صیاد بھی اس کے تڑپنے پر

    قیامت کا اثر ہے اضطراب مرغ بسمل میں

    یہ بیماری محبت کی کوئی نیرنگ ہے اے دل

    جہاں آیا مسیحا درد دونا ہو گیا دل میں

    دہان زخم نے کس کس مزے سے اس کو چوسا ہے

    لب شیریں کی لذت ہے زبان تیغ قاتل میں

    جدا ہوتی نہیں گردن سے قاتل زور کرتا ہے

    زبان تیغ نے لذت یہ پائی خون بسمل میں

    ذرا محمل سے ہٹ کر خاک اڑا او بے ادب مجنوں

    خیال اتنا تو کرنا چاہیے کہ کون محمل میں

    لگا کر وار اوچھا پھر نہ دیکھا اس طرف ہم نے

    قضا روتی رہی بیٹھی ہوئی پہلوئے بسمل میں

    نہ آمادہ ہوا ہو کوئی غمزہ اس کی شوخی پر

    الٰہی خیر بجلی سی چمکتی ہے مرے دل میں

    امیرؔ اس کی تجلی گاہ ہے دنیا جو آنکھیں ہوں

    وہی گل ہے گلستاں میں وہی ہے شمع محفل میں

    مأخذ :
    • کتاب : کلام امیر مینائی (Pg. 98)
    • Author : امیر مینائی
    • مطبع : مشورہ بک ڈپو، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے