کوئی لائے اس کو ذرا ہوش میں
کوئی لائے اس کو ذرا ہوش میں
یہ واعظ ہے کس خواب خرگوش میں
شب وصل اٹھائے یہ باہم مزے
نہ وہ ہوش میں ہیں نہ ہم ہوش میں
خم مے کا ڈر سے لہو خشک ہے
پڑا جام دست بلا نوش میں
ہیں صدقے کسے آج پیار آ گیا
یہ کون آ گیا میرے آغوش میں
نہ چھیڑو نکل جائے گی جان ابھی
دبی ہے وہ لبہائے خاموش میں
بڑھی ہیں دل آویزیاں حسن کی
زمرد کے آویزے ہیں گوش میں
سر بزم واعظ سے دبنا پڑا
وہ خم سے رسوا تھا تن و توش میں
ٹھکانا ہے کیا شیخ مجھ مست کا
کبھی کہہ دیا ہوگا کچھ جوش میں
فرشتے مرے بانٹ لیں کچھ گناہ
کمی ہو گر انباری دوش میں
نہیں پاؤں میں صرف مہندی لگی
لگے لال ہیں ان کی پاپوش میں
خدا جانے کہتا ہوں مستی میں کیا
خدا جانے بکتا ہوں کیا جوش میں
بنے دیر الٰہی یہ کعبہ مرا
رہیں بت دل حق فراموش میں
ریاضؔ اب کہاں وہ جوانی کے دن
کہاں اب حسیں کوئی آغوش میں
- کتاب : ریاض رضواں (Pg. 297)
- Author : ریاضؔ خیرآبادی
- مطبع : کتاب منزل،لاہور (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.