کچھ کہوں کہنا جو میرا کیجیے
کچھ کہوں کہنا جو میرا کیجیے
چاہنے والے کو چاہا کیجیے
حوصلہ تیغ جفا کا رہ نہ جائے
آئیے خون تمنا کیجیے
فتنۂ روز قیامت ہے وہ چال
آج وہ آتے ہیں دیکھا کیجیے
کس کو دیکھا ان کی صورت دیکھ کر
جی میں آتا ہے کہ سجدہ کیجیے
فتنے سب برپا کئے ہیں حسن نے
میری الفت کو نہ رسوا کیجیے
حور جنت ان سے کچھ بڑھ کر سہی
ایک دل کیا کیا تمنا کیجیے
کر دیا حیرت نے مجھ کو آئینہ
بے تکلف منہ دکھایا کیجیے
جوش میں آ جائے رحمت کی طرح
ایک اک قطرے کو دریا کیجیے
نام اگر درکار ہے مثل نگیں
ایک گھر میں جم کے بیٹھا کیجیے
مل چکے اب ملنے والے خاک کے
قبر پر جا جا کے رویا کیجیے
کون تھا کل باعث بے پردگی
آپ مجھ سے آج پردا کیجیے
کل کی باتوں میں تو کچھ نرمی سی ہے
آج پھر قاصد روانا کیجیے
راہ تکتے تکتے آسیؔ چل بسا
کیوں کسی سے آپ وعدا کیجیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.