کیا ہوا گر چشم تر سے خوں ٹپک کر رہ گیا
کیا ہوا گر چشم تر سے خوں ٹپک کر رہ گیا
بادۂ گلگوں کا ساغر تھا چھلک کر رہ گیا
دل سواد زلف میں ڈھونڈے ہے رستا مانگ کا
راہ جو بھولا مسافر سو بھٹک کر رہ گیا
سینکڑوں مر مر گئے ہیں عشق کے ہاتھوں سے آہ
میں ہی کیا پتھر سے اپنا سر پٹک کر رہ گیا
ہمرہاں پہنچے کبھی کے منزل مقصود کو
دو قدم چلتے ہی میں ہیہات تھک کر رہ گیا
تاب اس بالی کے موتی کی نہیں کیا زلف میں
اے دل آشفتہ سچ کہہ کیوں تو بک کر رہ گیا
سر زمین شام میں تارا گرا تھا ٹوٹ کر
یا اندھیری رات میں جگنوں چمک کر رہ گیا
طرفۃ العین اس کی مژگاں کی تصور سے نصیرؔ
خار سا آنکھوں میں میری کچھ کھٹک کر رہ گیا
- کتاب : انتخاب کلیات شاہ نصیرؔ مرتب حافظ محمد اکبر (Pg. 6)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : اعلیٰ پریس میرٹھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.