کیا نظر آتا تجھے عالم تری تنویر کا
کیا نظر آتا تجھے عالم تری تنویر کا
نور آنکھوں کو ملا تھا دیدۂ تصویر کا
میں زبان خامہ ہوں خوگر نہیں تقریر کا
ہم زباں ہوں اس چمن میں بلبل تصویر کا
مے سے چلو بھر دے ساقی جام کا کیا انتظار
ابر آیا جھوم کر موقع نہیں تاخیر کا
حسن کے نشہ میں کچھ پروا نہ تجھ کو اس کی ہو
خامۂ بہزاد منہ چوما کرے تصویر کا
لاغری بخشی مجھے دیوانگی نے اس قدر
بن گیا ہوں مردمک میں دیدۂ زنجیر کا
وہ سراپا نور ہے تو سادہ کاروں نے کہا
چاہیے زیور کو سونا مہر پر تنویر کا
کشتۂ خاموشیٔ دلدار ہوں میں اے ندیم
میں نے پائی ہے زباں بت کی دہن تصویر کا
مدح خط مصحف تاباں وہ سن کر بول اٹھا
مرتبہ قرآن سے بڑھ کر نہیں تفسیر کا
ذبح کرتی ہے جدائی مجھ کو اس کی صبح وصل
خواب سے چونک اے موذن وقت ہے تکبیر کا
ظاہری زینت سے لطف باطنی ممکن نہیں
دیکھ لو بیکار ہے پر بلبل تصویر کا
مجھ کو یہ ہٹ ہے کہ اب تدبیر سے تنگ آ گیا
ان کو یہ ضد ہے کہ میں قائل نہیں تقدیر کا
صورت بسمل تڑپتا ہوں اے جان صبح وصل
کم نہیں خنجر سے مجھ کو زمزمہ تکبیر کا
ہوں وہ برباد جہاں نقشہ جو مشکل سے کھنچا
رنگ بن کر اڑ گیا کاغذ میری تصویر کا
نخل بند گلشن مضموں ہوں فیض فکر سے
ہر ورق دیواں کا میرے باغ ہے کشمیر کا
آرزو تھی کربلا میں دفن ہوتے عرشؔ ہم
دیکھتے مر کر بھی روضہ حضرت شبیر کا
- کتاب : کلیات عرش (Pg. 44)
- Author : علامہ سید ضمیرالدین احمد
- مطبع : فائن آرٹ پریس (1932)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.