جان جاوے پہ نہ ہو خواہش جاناں پیدا
جان جاوے پہ نہ ہو خواہش جاناں پیدا
سر رہے یا نہ رہے ہو نہ یہ ساماں پیدا
اُس طرف جانے کے ہونے لگے ساماں پیدا
توشۂ راہ عدم کر دل نالاں پیدا
خواب میں کر کے ترے گیسوئے شبگوں کا خیال
روز کرتے ہیں حریف شب ہجراں پیدا
تھے یہ انداز نہ لیلی کے نہ شیریں کے یہ طور
کچھ نئے ڈھنگ کئے تم نے مری جاں پیدا
وصل کی شب ہے سحر کو بھی خداوندِ کریم
بدلے خورشید کے ہووے مہ تاباں پیدا
آئے وہ ماہ تو ہو رونق مہتاب دوچند
چاندنی رات میں ہو مہر درخشاں پیدا
راہ چلتے کبھی ہو جایا کرے یاد اللہ
ربط اتنا تو کرو ہم سے مری جاں پیدا
روٹھ کر ہم سے ملے جا کے جو تم غیروں سے
رنج تھا اور ہوا رشک رقیباں پیدا
تجھ پہ بس چل نہیں سکتا ہے وگرنہ اے دوست
میل پریوں سے بھی کرلیتے ہیں انساں پیدا
یاد آئے جو شب وصل میں ایام فراق
دل نے کیا کیا نہ کئے حسرت و ارماں پیدا
رات آغوش میں تھا یار قابل مہتاب
نشۂ مئے نے کیا لطف دو چنداں پیدا
تو وہ محبوب صنم ہے کہ جہاں میں تجھ سا
نہ پریزاد ہوا کوئی نہ انساں پیدا
عرش سے تابہ زمیں تجھ پہ سبھی مایل ہیں
نام خوبوں میں کیا تم نے مری جاں پیدا
گرمی صحبت اغیار ابھی ٹھنڈی ہو
سرد آہوں سے کریں ہم جو زمستاں پیدا
کوئی شیریں کوئی لیلیٰ کوئی کہتا ہے دمن
نام کیا کیا نہ کئے تم نے مری جاں پیدا
دل بیتاب نے رہنے نہ دیا ہم کو کہیں
سیکڑوں شور ہوئے لاکھوں بیاباں پیدا
بے وفا تو ہے پریزاد مقرر ورنہ
اس قرینہ کے تو ہوتے نہیں انساں پیدا
ایک دن بھی رخ روشن نہ دکھایا تم نے
روز کرتا ہے سحر مہر درخشاں پیدا
غم فرقت کی نہیں تاب ہمیں اے فدویؔ
یا خدا جلد ہو اب وصل کا ساماں پیدا
- کتاب : تذکرۂ ہندو شعرائے بہار (Pg. 59)
- Author : فصیح الدین بلخی
- مطبع : نینشل بک سینٹر، ڈالٹین گنج پلامو (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.