Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

عشق خلوت میں تھا آخر سر بازار ہوا

محمود شاہ نقشبندی

عشق خلوت میں تھا آخر سر بازار ہوا

محمود شاہ نقشبندی

عشق خلوت میں تھا آخر سر بازار ہوا

ایک عالم میری حالت سے خبر دار ہوا

لیلیٰ مجنوں کا ہے قصہ یا زلیخا یوسف

عشق میں شیریں کے فرہاد کیوں کوہسار ہوا

عشق اور مشک چھپانے سے کہیں چھپتا ہے

لاکھ حجرے میں رکھو طبلۂ عطار ہوا

رخ دکھا اپنا ذرا اور اٹھا دے مقتع

جامۂ زندگی بس تن پہ گر انبار ہوا

ایک لحظہ نہ جدا یار وفا دار سے ہو

وقت سختی و مصیبت جو مدد گار ہوا

یار دنیا سے وفائی نہیں دیکھا کوئی

امتحان کر کے زمانہ کا میں ہوشیار ہوا

کس میں طاقت ہے کرے وصف امام اعظم

سو دفعہ خواب میں رب کا جسے دیدار ہوا

برس چالیس تک ایک وضو سے نماز عشا

کیا نماز فجر پڑھی کیسا یہ سردار ہوا

کیا نکلتی ہے زباں سے وہ انا الحق کی صدا

سرِ منصوراسی واسطے بردار ہوا

رند مستوں کا ہے مقبول سبھی حال وقال

مئے وحدت جو پیا اس کا رب غفار ہوا

جامۂ چوں کی خبر جس کو نہ ہو ہے مجذوب

حالتِ جذب میں کیا حال نمودار ہوا

عاشقِ نام محمد کو نہ چھوئے گی دوزخ

نفس شیطاں سے گر لاکھ گنہ گار ہوا

ہوئی اسی وسیلہ سے اسی نام کے آدم کی نجات

توبہ قبول ہوئی کیا یہ استغفار ہوا

غرق سے نوح کی کشتی کو نکالا کس نے

نور احمد میرا ہر جائے مدد گار ہوا

شر سے نمرود کے بچنے کا سبب تھا ہونا

شعلۂ نار ابراہیم پر گل زار ہوا

گل نہ ہووے گا قیامت تک چراغِ محمودؔ

جس نے افروختہ کی وہی نگہدار ہوا

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے