محو ہو کر بے نیاز اسوا ہو جائیے
محو ہو کر بے نیاز اسوا ہو جائیے
ان سے جب مل جائیے سب سے جدا ہو جائیے
خلوت غم کی خموشی میں فنا ہو جائیے
یوں حیات افروز ناموس وفا ہو جائیے
منتہائے منزل جاناں ہے جب وارفتگی
کیوں نہ آوارہ مثال نقش پا ہو جائیے
شرط آزادی اسیری جب مسلم ہو چکی
توڑیئے پھر کیوں قفس کو کیوں رہا ہو جائیے
عالم اسباب میں پیدا کیا ہے خود مجھے
خود تقاضا ہے کہ بے برگ و نوا ہو جائیے
آپ کی آواز میں ہے دعوت منزل کا راز
کاروان شوق کی بانگ درا ہو جائیے
ہے فریب رنگ دنیا سے یہ تدبیر گریز
سادگی ہائے محبت میں فنا ہو جائیے
دیجئے ان کو کنار آرزو پر اختیار
جب وہ ہوں آغوش میں بے دست و پا ہو جائیے
کیا تعجب ہے یہی ہو ان کا وقت التفات
کیوں وفور یاس سے نالہ سرا ہو جائیے
ہم تو اپنی بے خودیٔ شوق میں سرشار تھے
آپ سے کس نے کہا تھا خود نما ہو جائیے
اپنی صورت میں اگر جلوہ گری سے ہے حجاب
میری ہی تصویر میں صورت نما ہو جائیے
پردۂ منزل میں چھپ چھپ کر تبسم کیجیے
پا شکستہ کارواں کا آسرا ہو جائیے
خود بخود سیمابؔ ہیں ان کی نگاہیں ملتفت
ہے یہ وقت خاص مصروف دعا ہو جائیے
- کتاب : کلیم عجم (Pg. 293)
- Author : سیماب اکبرآبادی
- مطبع : رفاہ عام پریس، آگرہ (یوپی) (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.