میں حسن کی نظروں سے جب محو تماشا تھا
میں حسن کی نظروں سے جب محو تماشا تھا
اے بے خودی دل کیا تونے مجھے دیکھا تھا
یہ میرے تصور میں حیرت کدہ کس کا تھا
اک عالم بے رنگی نظریں تھیں نہ جلوا تھا
تو وہم کے پردے میں محروم تماشا تھا
پردہ جسے سمجھا تھا غافل وہی جلوا تھا
غیرت نے گوارا کی ہر حال میں خاموشی
فطرت سے شکایت بھی کی گو نہ تقاضا تھا
ہیں چاک گریباں کے تیور میں شکن اب تک
کل عالم وحشت میں کس نے مجھے چھیڑا تھا
ہر حال مرے دل کا اک حال مسلسل ہے
پہلے بھی غم فردا میرا غم فردا تھا
نازک سی شگفتہ سی آواز اک آئی تھی
کیا تم نے مجھے دل کے پردے سے پکارا تھا
بجلی کی طرح وہ تو لہرا کے ہوئے پنہاں
میں کس سے کہوں میرا مقصود نظر کیا تھا
آسودگیٔ ظرف نظارا پہ مرتا ہوں
اک جلوہ ناقص بھی تسکین تماشا تھا
مجبور تعلق ہوں جب غور کیا میں نے
دنیا تو نہ تھی دل میں لیکن غم دنیا تھا
کیا حلقۂ وحشت سے ملتی انہیں آزادی
دیوانوں کی دنیا میں صحرا پس صحرا تھا
مجھ کو شب غربت میں کیوں مونس غم ملتا
جو کام تھا فطرت کا ہر حال میں تنہا تھا
سیمابؔ محبت کے آلام کا شکوہ کیا
انساں پہ محبت کا انعام بھی کیا کیا تھا
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 112)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.