لگا کر دل کسی سے کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو
لگا کر دل کسی سے کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو
گرفتار بلائے غم نوا سنج فغاں کیوں ہو
نہ کیجیے گر ستم ہم پر تو فریاد و فغاں کیوں ہو
رہے پردہ میں گر الفت خلائق راز داں کیوں ہو
دیا ہے ہم نے دل اپنا کسی کا کیا بگاڑا ہے
زبان خلق پر جاری ہماری داستاں کیوں ہو
جفا عادت تمہاری ہے تو پھر یہ ماجرا کیا ہے
بتاؤ تو عدو تم یہ بھلا پھر مہرباں کیوں ہو
تقاضہ عقل کا ہے ضبط رکھنا سوز پنہاں کو
کسی سے کہہ کے راز عشق رسوائے جہاں کیوں ہو
نہ آئے گر خیال غمزۂ ناوک فگن دل میں
نفس نوک سنان بن بن کے پہلو میں نہاں کیوں ہو
جیئں گے قم باذن اللہ سے کشتے نہ الفت کے
مسیحا معجزہ اپنا گنواتے رائیگاں کیوں ہو
غرض پردہ نشینی ہے تو بیٹھو خانۂ دل میں
نقاب افگندہ محفل میں بتاؤ تو عیاں کیوں ہو
نہ کھٹکا ہے نہ وا ہے چشم در پھر خوف کس کا ہے
اکیلے میں حیا میری تمہارے درمیاں کیوں ہو
خیال قاتل عیسیٰ نفس گر چھوڑ دے ہم کو
کشاکش میں بوقت نزع جان ناتواں کیوں ہو
بنایا بیخودیؔ نے آپ سے بے خود تو پھر کیا ہے
زبان خلق کا کھٹکا خیال دشمناں کیوں ہو
- کتاب : سوانح عمری مولوی سمیع اللہ خان بہادر (Pg. 210)
- Author : منشی ذکاؤاللہ دہلوی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.