مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے
مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے
ہر طفل کے یاں اشک سے آلودہ ورق ہے
ہوں منتظر اس مہر کے آنے ہی کا ورنہ
شبنم کی طرح آنکھوں میں دم کوئی رمق ہے
دیکھ اے چمن حسن تجھے باغ میں خنداں
شبنم نہیں یہ گل پہ خجالت سے عرق ہے
وہ چاند سا منہ سرخ دوپٹہ میں ہے رخشاں
یا مہر کہوں جلوہ نما زیر شفق ہے
نرگس کی زر و گل پہ بھی وا چشم طمع ہے
اس پر کہ زر و سیم کا اس پاس طبق ہے
دل اس بت بے مہر کو دے مفت ہی کھویا
کہتے ہیں جو کچھ یار مجھے واقعی حق ہے
جز تیرے نہیں غیر کو رہ دل کے نگر میں
جب سے کہ ترے عشق کا یاں نظم و نسق ہے
مذکور ہوا یاں مگر اس گل کے دہن کا
جو رشک سے ہر غنچہ کا دل باغ میں شق ہے
کر مصقلۂ ذکر سے دل صاف تو اپنا
بیدارؔ یہ آئینہ تجلی گہۂ حق ہے
- کتاب : دیوان بیدارؔ مرتبہ: جلیل احمد قدوائی (Pg. 102)
- Author : میر محمد بیدارؔ
- مطبع : ہندوستانی اکادمی الہ آباد (1937)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.