مقدور کیا مجھے کہ کہوں واں کہ یاں رہے
مقدور کیا مجھے کہ کہوں واں کہ یاں رہے
ہیں چشم و دل گھر اس کے جہاں چاہے واں رہے
مثل نگاہ گھر سے نہ باہر رکھا قدم
پھر آئے ہر طرف یہ جہاں کے تہاں رہے
نے بت کدہ سے کام نہ مطلب حرم سے تھا
محو خیال یار رہے ہم جہاں رہے
جس کے کہ ہو نقاب سے باہر شعاع حسن
وہ روئے آفتاب خجل کب نہاں رہے
آئے تو ہو پہ دل کو تسلی ہو تب مرے
اتنا کہو کہ آج نہ جاویں گے ہاں رہے
ہستی ہی میں ہے سیر عدم اس کو یاں جسے
فکر میان یار و خیال دہاں رہے
غیبت ہی میں ہے اس کی ہمارا ظہور یاں
وہ جلوہ گر جب آگے ہوا ہم کہاں رہے
بیدارؔ زلف کھینچے ادھر چشم یار ادھر
حیراں ہے دل کہاں نہ رہے کس کے ہاں رہے
- کتاب : دیوان بیدارؔ مرتبہ: جلیل احمد قدوائی (Pg. 94)
- Author : میر محمد بیدارؔ
- مطبع : ہندوستانی اکادمی الہ آباد (1937)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.