کیا تو بھی تماشہ ہے اے جلوۂ جانانہ
کیا تو بھی تماشہ ہے اے جلوۂ جانانہ
پردہ میں تو تو خود ہے اور خلق ہے دیوانہ
تیری ہی تجلی ہے رونق رہ کاشانہ
آباد تجھی سے ہے یہ عالم ویرانہ
ادراک سے برتر ہے عالم متحیر ہے
تو کون ہے کیا شئے ہے حیران ہے فرزانہ
جاں دادۂ الفت ہوں وابستہ گیسو ہوں
آنکھوں میں مرے تو ہے مستانہ ہوں مستانہ
صوفی ہو برہمن ہو یا رند خراباتی
کعبہ ہو کلیسا ہو ہو شہر کہ ویرانہ
تو سب کی زباں پر ہے جلوہ ہے ترا ہرجا
سب کھیل ہیں یہ تیرے اے جلوۂ جانانہ
اس مشربؔ خستہ کی بس اتنی تمنا ہے
اپنے سے شناسا کر اغیار سے بیگانہ
- کتاب : بہارمیں اردو کی صوفیانہ شاعری (Pg. 219)
- Author :محمد طیب ابدالی
- مطبع : اسرار کریمی پریس الہ آباد (1988)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.