آنکھوں سے رواں کیوں ہے مرا خونِ جگر آج
آنکھوں سے رواں کیوں ہے مرا خونِ جگر آج
شاید کہ ہوا دل ہدفِ تیرِ نظر آج
کیا دل کی لگی ہجر میں اشکوں سے بجھے گی
کیا تیرا بھروسا ہو مجھے دیدۂ تر آج
رہ رہ کے جو یاد آتا ہے اک بھولنے والا
تھم تھم کے کچھ اٹھتا ہے مرا دردِ جگر آج
افسوس یہی ہے کہ خریدار ہیں مفقود
ہر اشک کا قطرہ ہے مرا رشکِ گہر آج
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ساعت ہے جو اس کی
شاید کہ نہ ہوگی شبِ فرقت کی سحر آج
وہ صبح سے گھبرائے ہوئے پھرتے ہیں گھر میں
دکھلاتی ہے تاثیر مری آہِ جگر آج
یا کل تھے کسی بزم میں ہم زینت محفل
یا مثل بگولے کے ہوئے خاک بسر آج
اک سمت ہیں ارمان تو اک سمت تمنا
اس شان سے ہم جاتے ہیں اللہ کے گھر آج
پہلو سے جو پھر اٹھ کے وہ مسعودؔ گیا ہے
ہے صبح سے پھر حال مرا نوعِ دگر آج
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.