جب آئے ہیں اٹھے ہیں وہ مرے گھر سے خفا ہو کر
جب آئے ہیں اٹھے ہیں وہ مرے گھر سے خفا ہو کر
ملے ہیں با وفا ہو کر گئے ہیں بے وفا ہو کر
یہی ارمان دل میں ہے کہ پہنچوں کوئےجاناں میں
مگر اتنا نہیں معلوم جاؤں کیا سے کیا ہو کر
جب آئے تھے نشیمن اپنا ہم خود پھونک آئے تھے
کہاں جائیں گے آخر قید ہستی سے رہا ہو کر
مجازی عشق گویا رہبرِ راہِ حقیقت ہے
خدا کا خاص بندہ ہو بتوں کا آشنا ہو کر
چھپانے سے نہیں چھپتی ہیں رازِ الفتِ پنہاں
کسی دن ہوں گے ظاہر میرے ارماں مدعا ہو کر
نکلتا ہے وہ جس دم سر بسجدہ ہوتے ہیں عاشق
بتِ خود سر جو چلتا ہے تو چلتا ہے خدا ہو کر
مجھے کہنا ہیں تم سے تخلیے میں راز کی باتیں
جو سننا ہے تو سن لو ان کو محفل سے جدا ہو کر
الگ رہتا ہوں میں دنیا میں یوں اپنے مخالف سے
بسر کرتی ہے جیسے دھوپ سائے سے جدا ہو کر
غم و رنج و الم مسعودؔ کو مہلت نہیں دیتے
کرے کیوں کر تری طاعت گرفتار بلا ہو کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.