خفا اس سے کیوں تو مری جان ہے
خفا اس سے کیوں تو مری جان ہے
اثرؔ تو کوئی دم کا مہمان ہے
تیرے عہد میں سخت اندھیر ہے
کہ عشق و ہوس ہر دو یکسان ہے
کہوں کیا خدا جانتا ہے صنم
محبت تری اپنا ایمان ہے
دل و غم میں اور سینہ و داغ میں
رفاقت کا یاں عہد و پیمان ہے
تجھے بھی کبھو کچھ مرا ہے خیال
مجھے مرتے مرتے ترا دھیان ہے
نہ دیکھا پھر آخر کہ مشکل پڑی
ادھر دیکھنا ایسا آسان ہے
قیامت یہی ہے کہ ابرو کماں
تجھے جن نے دیکھا سو قربان ہے
گلوں کی طرح چاک کا اے بہار
مہیا ہر اک یاں گریبان ہے
بھلا دید کر لیجئے مفت ہے
کہ اب تک ستم گر وہ انجان ہے
مجھے قتل کرتے تو ان نے کیا
پر اپنے کئے پر پشیمان ہے
نہیں ہے یہ قاتل تغافل کا وقت
خبر لے کہ باقی ابھی جان ہے
تأمل کہاں ورنہ چوں غنچہ یاں
جو سر ہے سو غرق گریبان ہے
یہ کیا ہو گیا دیکھتے دیکھتے
اثرؔ میں تو میں وہ بھی حیران ہے
- کتاب : دیوان اثرؔ مرتبہ: کامل قریشیؔ (Pg. 225)
- Author : میر اثرؔ
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1978)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.