کہوں کیا دل اڑانے کا ترا کچھ ڈھب نرالا تھا
کہوں کیا دل اڑانے کا ترا کچھ ڈھب نرالا تھا
وگرنہ ہر طرح سے اب تلک تو میں سنبھالا تھا
کہاں اب کھل کے وہ رونا کدھر وہ اشک کی شورش
کبھو کچھ پھوٹ بہتا ہے جگر پر وہ جو چھالا تھا
ہوا آوارۂ دشت و بیاباں دیکھتے اپنے
وہ طفل اشک جو الفت سے آنکھوں بیچ پالا تھا
ترا غم کھا گیا میرا کلیجہ دل سبھی یک بار
ہوا ہوگا کہاں سے سیر یہ تو اک نوالا تھا
ابھی تو لگ نہ چلنا تھا اثرؔ اس گل بدن کے ساتھ
کوئی دن دیکھنا تھا زخم دل بے طرح آلا تھا
- کتاب : دیوان اثرؔ مرتبہ: کامل قریشیؔ (Pg. 191)
- Author : میر اثرؔ
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1978)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.