فراق یار میں زاری جو آگے تھی سواب بھی ہے
فراق یار میں زاری جو آگے تھی سواب بھی ہے
مجھے جینے سے بیزاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
موئے پر بھی نہ چھوٹے قید سے زلف مسلسل کی
نصیبوں کی گرفتاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
نقاہت کی بدولت اپنے گھر بیٹھا ہوں میں لیکن
تلاش حسن بازاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
پڑ ا رہتا ہوں بستر پر برنگ نقش قالیں میں
تری فرقت میں بیکاری جو آگے تھے سو اب بھی ہے
چھپا کر منہ کو بالوں میں شب وصلت وہ کہتے ہیں
تری قسمت کی اندھیاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
ہوا ہوں پیر فانی رو سپیدی کا نہیں کچھ غم
مجھے فکر سیہ کاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
شب غم کی وہ تنہائی نہ خواب آیا نہ موت آئی
وہ بد خوابی وہ بیداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
گیا موسم جو انی کا ہوئے بوڑھے بھی ہم لیکن
وہ رندی اور میخواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
چھٹے سب اپنے بیگانے بتوں کے پاس آنے سے
وہی ذلت وہی خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
غم آئینہ رویوں میں چمک پیدا لگی ہونے
دل حیراں کو بیماری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
زمانہ ہوگیا آخر و لیکن نام ہے روشن
کرامت فیضؔ کی جاری جو آگے تھے سو اب بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.