Sufinama

مری فطرت وفا ہے دے رہا ہوں امتحاں پھر بھی

سیماب اکبرآبادی

مری فطرت وفا ہے دے رہا ہوں امتحاں پھر بھی

سیماب اکبرآبادی

MORE BYسیماب اکبرآبادی

    مری فطرت وفا ہے دے رہا ہوں امتحاں پھر بھی

    وہ فطرت آشنا ہے اور مجھ سے بد گماں پھر بھی

    چھپاتا ہوں مگر چھپتا نہیں درد نہاں پھر بھی

    نگاہ یاس ہو جاتی ہے دل کی ترجماں پھر بھی

    غم واماندگی سے بے نیاز ہوش بیٹھا ہوں

    چلی آتی ہے آواز درائے کارواں پھر بھی

    وہ میرے سر کو ٹھکراتے ہیں سجدوں سے خفا ہو کر

    جبیں سے میری پیوستہ ہے ان کا آستاں پھر بھی

    کلیسا اور کعبہ نام کو دو جلوہ گاہیں ہیں

    مگر یک رنگ ہے ذوق جبین و آستاں پھر بھی

    وفا اک لذت پر کیف ہے اک آیت تسکیں

    وفا کا نام لینے سے لرزتی ہے زباں پھر بھی

    حجاب اندر حجاب امواج طوفان تجلی ہیں

    فروغ شمع سے پروانہ ہے آتش بجاں پھر بھی

    اشاروں سے نگاہوں سے بہت کچھ منع کرتا ہوں

    قفس ہی پر جھکی پڑتی ہے شاخ آشیاں پھر بھی

    بہت دلچسپ ہے سیمابؔ شام وادیٔ غربت

    وطن کی صبح میں کچھ اور تھیں رنگینیاں پھر بھی

    مأخذ :
    • کتاب : کلیم عجم (Pg. 261)
    • Author : سیماب اکبرآبادی
    • مطبع : رفاہ عام پریس، آگرہ (یوپی) (1935)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے