مری فطرت وفا ہے دے رہا ہوں امتحاں پھر بھی
مری فطرت وفا ہے دے رہا ہوں امتحاں پھر بھی
وہ فطرت آشنا ہے اور مجھ سے بد گماں پھر بھی
چھپاتا ہوں مگر چھپتا نہیں درد نہاں پھر بھی
نگاہ یاس ہو جاتی ہے دل کی ترجماں پھر بھی
غم واماندگی سے بے نیاز ہوش بیٹھا ہوں
چلی آتی ہے آواز درائے کارواں پھر بھی
وہ میرے سر کو ٹھکراتے ہیں سجدوں سے خفا ہو کر
جبیں سے میری پیوستہ ہے ان کا آستاں پھر بھی
کلیسا اور کعبہ نام کو دو جلوہ گاہیں ہیں
مگر یک رنگ ہے ذوق جبین و آستاں پھر بھی
وفا اک لذت پر کیف ہے اک آیت تسکیں
وفا کا نام لینے سے لرزتی ہے زباں پھر بھی
حجاب اندر حجاب امواج طوفان تجلی ہیں
فروغ شمع سے پروانہ ہے آتش بجاں پھر بھی
اشاروں سے نگاہوں سے بہت کچھ منع کرتا ہوں
قفس ہی پر جھکی پڑتی ہے شاخ آشیاں پھر بھی
بہت دلچسپ ہے سیمابؔ شام وادیٔ غربت
وطن کی صبح میں کچھ اور تھیں رنگینیاں پھر بھی
- کتاب : کلیم عجم (Pg. 261)
- Author : سیماب اکبرآبادی
- مطبع : رفاہ عام پریس، آگرہ (یوپی) (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.