مری موت سے اتنی وحشت ہوئی
مسیحا کو مرنے کی حسرت ہوئی
اسے بیکلی میری راحت سے تھی
میں بیکل ہوا اس کو راحت ہوئی
ہے صحرا یہ وحشت اثر عشق کا
بگولوں کو بھی جس سے وحشت ہوئی
وہ لاغر ہوں اس نے کیا امتحاں
عیاں آئینہ میں نہ صورت ہوئی
ہے پھیرے ہوئے منہ کھڑی ہجر میں
اجل کو بھی مجھ سے یہ نفرت ہوئی
پتنگے گرے شمع کو دیکھ کر
عیاں شان وحدت سے کثرت ہوئی
تری چال نے فتنہ برپا کیا
قیامت سے پیدا قیامت ہوئی
ترے عشق کی قید وہ قید ہے
مقرر نہ کچھ جس کی مدت ہوئی
ہوا گل مری زندگی کا چراغ
نمایاں جو شام مصیبت ہوئی
وہ مجنوں کی تصویر پر پوچھنا
تری کس کے غم میں یہ صورت ہوئی
گلے آ کے مل لیجئے عید ہے
زمانہ ہوا ایک مدت ہوئی
وہ وحشت ہماری تھی روز جنوں
کہ مجنوں کو بھی جس سے وحشت ہوئی
بدل جاتی ہے اب تو کروٹ نسیم
ترتے غم میں زائل یہ طاقت ہوئی
تجھے نزع میں دیکھ کر اے سلامؔ
کہے عرشؔ کیا کیسی عبرت ہوئی
- کتاب : کلیات عرش (Pg. 117)
- Author : علامہ سید ضمیرالدین احمد
- مطبع : فائن آرٹ پریس (1932)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.