بیٹھے ہیں شیخ مفت کی بوتل سے ڈھال کے
بیٹھے ہیں شیخ مفت کی بوتل سے ڈھال کے
اب کچھ نہیں خیال حرام و حلال کے
فرقت بھی ہوگی گو ہیں ابھی دن وصال کے
آغاز میں خیال ہیں ہم کو مآل کے
واعظ بہار میں نہ سنے گا کوئی ترا
رہنے دے مسئلے یہ حرام و حلال کے
اے اضطراب دل ہے تڑپنے کا لطف جب
پہنچا دے مجھ کو بام پہ ان کے اچھال کے
فرصت کے ہاتھ ہے مرا آنا یہ کیا کہا
وعدے میں بھی نکلتے ہیں پہلو ملال کے
ساقی نے دخت رز کو چھپایا بہت مگر
آخر کو لے گئے اسے میکش نکال کے
کیسا جلا کے طور کو سرمہ بنا دیا
شعلے غضب تھے یار کی برق جمال کے
دل کے سوا بھلا ہے مرے پاس اور کیا
خواہاں حضور بھی ہیں غریبوں کے مال کے
سینہ ابھار کر یہ گیا سامنے سے کون
پہلو سے کون لے گیا دل کو نکال کے
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد دسویں (Pg. 233)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.