محبت جان بازی ہے لگا لے جس کا جی چاہے
محبت جان بازی ہے لگا لے جس کا جی چاہے
یہ بیڑا ہے تباہی کا اٹھا لے جس کا جی چاہے
یہ شیر عشق سوتا ہے جگا لے جس کا چاہے
پکڑ شمشیر ذلت کی چلا لے جس کا جی چاہے
محبت ہم کریں اس سے وہ کرتا ہے ستم ہم پر
ستم گر سے یہ دل اپنا ملا لے جس کا جی چاہے
نہ چھوٹے گا کبھی ہرگز پھنسا جو دام الفت میں
دل اپنا زلف دلبر سے پھنسا لے جس کا جی چاہے
سوا قسمت کے دنیا میں نہیں کچھ مطلقاً ملتا
وگرنہ زور کر کے آزما لے جس کا جی چاہے
مکاں ہیں خوب تر سارے جو وصل خوبرو ہووے
ملے محبوب جس جا گا بٹھا لے جس کا جی چاہے
کوئی مسجد بناتا ہے کوئی بت خانہ دنیا میں
مکاں بنتے ہیں دولت سے بنا لے جس کا جی چاہے
محبت اور محنت کی ہے صورت ایک سی پیارے
بلائے آسمانی ہے لگا لے جس کا جی چاہے
نگاہ یار ہے ترچھی لیے شمشیر آتا ہے
یہ سر اپنا خوشامد سے کٹا لے جس کا جی چاہے
جو مرنے سے موئے پہلے انہیں کیا خوف دوزخ کا
دل اپنا نار ہجرت سے جلا لے جس کا جی چاہے
شراب معرفت عارفؔ بجام صدق پیتا ہے
نہیں ہٹتا ہٹانے سے ہٹا لے جس کا جی چاہے
- کتاب : دیوان عارفؔ (Pg. 93)
- Author : کشن سنگھ عارفؔ
- مطبع : چشمۂ نور پریس، امرتسر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.