محبت کو میری غرض تم سے کیا ہے
محبت کو میری غرض تم سے کیا ہے
طبیعت کا دل کی یہی مقتضا ہے
خدا جانے دل کو مرے کیا ہوا ہے
تمہیں سے خفا ہے تمہیں پر فدا ہے
میں خود معنی حسن ہوں اے ستمگر
مگر کچھ جدائی میں تیری مزا ہے
تمہارا ستم عین میری محبت
کسی پر کیا تم نے مجھ پر ہوا ہے
جنوں میرا دونوں جہاں میں مسلم
تمہیں بھی مگر چھیڑنے کا مزا ہے
میں اس دور ہستی میں وہ دائرہ ہوں
کہ ہر انتہا پر مری ابتدا ہے
نہ کچھ کہہ سکا میں نہ کچھ وہ ہی سمجھے
بہت دیر سوچا کہ کیا مدعا ہے
مجھے ہونے کے ہیں تو لاکھ شکوہ
کیا تم سے شکوہ یہ اپنا گلا ہے
ذرا میں نے دیکھا کہ وہ چونک اٹھے
تف اے جذب دل یہ بھی کیا مشغلا ہے
ہے مردود دیر اور کعبے سے فارغ
نہ مومن نہ کافر یہ دل کیا بلا ہے
میں ہر فلسفے کی حقیقت ہوں میکشؔ
مرے سامنے ہیچ ہر فلسفہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.