سر مقتل جو لے کر تیغ وہ قاتل نکلتا ہے
سر مقتل جو لے کر تیغ وہ قاتل نکلتا ہے
کسی کا خون ہوتا ہے کوئی گھائل نکلتا ہے
کہاں جاتے ہو بالیں سے چلے جانا ذرا ٹھہرو
کہ دم کے ساتھ ارمان دل بسمل نکلتا ہے
جھکی غم کی گھٹا جانے سے تیرے اشک جاری ہیں
کہاں تو ایسے مینہ میں اے مہ کامل نکلتا ہے
چمن میں تو سمن میں تو دہن میں تو سخن میں تو
کہیں آسان ہوتا ہے کہیں مشکل نکلتا ہے
بہیں گے خون کس کس کے قضا آئی ہے کس کس کی
الٰہی خیر خنجر لے کے پھر قاتل نکلتا ہے
کوئی ان چاہنے والوں کی آخر انتہا بھی ہے
جسے دیکھو تمہارے حسن پر مائل نکلتا ہے
ستم کو چھوڑ بد اچھا برا بدنام دنیا میں
جفا کے ساتھ تیرا نام اے قاتل نکلتا ہے
مری حسرت نہ رہ جائے مرا ارماں نہ رک جائے
قمر ہٹ بام پر میرا مہ کامل نکلتا ہے
میں ڈر جاتا ہوں گویا وصل کی شب دن نکل آیا
جو برقع سے سنور کر وہ مہ کامل نکلتا ہے
کہاں ہے تو کہیں ہے تو نہاں ہے تو نہیں ہے تو
جدا ہر رنگ سے ہر رنگ میں شامل نکلتا ہے
نظر تھی یا کوئی میٹھی چھری تھی او بت قاتل
زباں کو چاٹتا زخموں کو ہر گھائل نکلتا ہے
ترے آگے ہوا ہے قافیہ تنگ اہل معنی کا
تو اکبرؔ ہر غزل کی بحر میں کامل نکلتا ہے
- کتاب : ریاض اکبر: اصلی دیوان اکبر (Pg. 71)
- Author : محمد اکبر خاں وارثی
- مطبع : مطبع مجیدی، میرٹھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.