چلا آتا ہے تنہا کیا سجیلا میرا قاتل ہے
چلا آتا ہے تنہا کیا سجیلا میرا قاتل ہے
دہن پان خوردہ آنکھیں سرمگیں رخسار پر تل ہے
مرے دم سے تجھے غیروں میں کیا کیا لطف حاصل ہے
شراب خون ارماں ہے کباب حسرت دل ہے
ہے آغاز شب وصل اور چھری اللہ اکبر کی
تو اے عشاق کے موذی مؤذن ہے کہ قاتل ہے
یہ کہتے ہیں وہ ہم راہ عدو آ آ کے تربت پر
کہ مجھ کو دیکھ لے اٹھ تو سہی تو کیسا غافل ہے
نکل کر زلف سے پہنچوں گا کیونکر مصحف رخ پر
اکیلا ہوں اندھیری رات ہے اور دور منزل ہے
ہیں روشن انجم و شمس و قمر کی رات دن شمعیں
ہمارے واسطے گردوں بھی کیا رونق کی محفل ہے
نہ پوچھو بے دریغی ہائے ارمان شہید غم
ادھر جھکتا ہے سر کھینچی ادھر شمشیر قاتل ہے
الٰہی دیکھ کر انعام تیرے شکر کرتے ہیں
ہمیں جام جہاں میں سے سوا ہر آنکھ کا تل ہے
ہوئیں ہیں چار آنکھیں جب سے ہے یہ تفرقہ باہم
کہیں تن ہے کہیں سر ہے کہیں جاں ہے کہیں دل ہے
جو تجھ کو شوق ہم آغوشی اغیار ہے کافر
تو ہم کو ذوق شربت نوشی زہر ہلاہل ہے
یہ دل گر وہ ہے کس کا پھیر لے دل ایسی بد خو سے
برہنہ تیغ ہے اک ہاتھ میں اور ایک میں دل ہے
ادا غمزے کرشمے عشوے ہیں بکھرے ہوئے ہر سو
صف مقتل میں یا قاتل ہے یا انداز قاتل ہے
غزل اک اور بھی ہاں اکبرؔ رنگیں سخن پڑھیے
ترے اشعار سے وہ چند نو چندی کی محفل ہے
- کتاب : ریاض اکبر: اصلی دیوان اکبر (Pg. 77)
- Author : محمد اکبر خاں وارثی
- مطبع : مطبع مجیدی، میرٹھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.