کہوں کیا کہ گلشن دہر میں وہ عجب کرشمے دکھا گئے
کہوں کیا کہ گلشن دہر میں وہ عجب کرشمے دکھا گئے
کہیں عاشقوں کو مٹا گئے کہیں لن ترانی سنا گئے
کبھی دیر و کعبہ بتا دیا کبھی لا مکاں کا پتا دیا
جو خودی کو ہم نے مٹا دیا تو وہ اپنے آپ میں پا گئے
کہیں عندلیب شمار میں کہیں گل ہیں فصل بہار میں
کہیں نور میں کہیں نار میں وہ ہزار رنگ دکھا گئے
جو خدا کہوں تو خدا نہیں جو جدا کہوں تو جدا نہیں
کوئی نکتہ ہم سے چھپا نہیں ہمیں پیچ و تاب میں آ گئے
ہمیں جستجو رہی جا بجا کہیں تیرا ہی نہ ملا پتا
کبھی کاشی جا کے تلاش کی کبھی درشنوں کو گیا گئے
کہیں این و آں کہیں شوخیاں کبھی نرمیاں کبھی گرمیاں
کبھی بن گئے کبھی تن گئے کبھی چل دئے کبھی آ گئے
ہے یہ عاشقوں کی فنا بقا کبھی مر گیا کبھی جی اٹھا
کہیں ترچھی نظروں نے کھا لیا کہیں عشوے آ کے جلا گئے
کہیں حسن بن کے قبول میں کہیں رنگ بن کے وہ پھول میں
کہیں نور بن کے رسولؐ میں وہ جمال اپنا دکھا گئے
تری جھونٹی کونٹی بچی کچھی جو ملی تو اکبرؔ وارثی
وہ بھرے نشہ کی ترنگ میں کہ کہیں کہیں کی سنا گئے
- کتاب : ریاض اکبر: اصلی دیوان اکبر (Pg. 88)
- Author : محمد اکبر خاں وارثی
- مطبع : مطبع مجیدی، میرٹھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.