راز دل کس کو سنائیں راز داں ملتا نہیں
راز دل کس کو سنائیں راز داں ملتا نہیں
جان جاتی ہے غضب ہے جان جاں ملتا نہیں
جس مکاں میں تو مکیں ہے وہ مکاں ملتا نہیں
جستجو میں گم ہوئے ایسے نشاں ملتا نہیں
روح راہی ہو گئی ہے چھوڑ کر جسم گلی
خاک اڑتی ہے نشان کارواں ملتا نہیں
داور محشر قیامت ہے مری فریاد ہے
لے گیا دل چھین کر اک دل ستاں ملتا نہیں
تجھ سے ملنے کا بتا پھر کون سا دن آئے گا
عید کو بھی مجھ سے گر اے میری جاں ملتا نہیں
اس بت نا مہرباں سے پھر ملا دے ایک بار
یا الٰہی کوئی ایسا مہرباں ملتا نہیں
ملتا جلتا رہتا ہے وہ عام سے اور مجھ سے خاص
ہاں میں ہاں ملتی نہیں جب تک نہاں ملتا نہیں
بیل میں بوٹے میں پھل میں پتیوں میں پھول میں
ہر چمن میں اس کا مظہر ہے کہاں ملتا نہیں
سانس کے چابک کی زد نے دم میں پہنچایا عدم
کچھ سراغ توسن عمر رواں ملتا نہیں
جیسی چاہے کوششیں کر واعظ باطن خراب
تیرے رہنے کو تو جنت میں مکاں ملتا نہیں
کم نہیں گلشن میں شبنم گل بدن گل پیرہن
غسل کر مل مل کے گر آب رواں ملتا نہیں
کس سے پوچھوں شہر خاموشاں میں سب خاموش ہیں
خاک ملتی ہے سراغ رفتگاں ملتا نہیں
کیا بتائیں کیا سنائیں کیا پڑھیں اکبرؔ غزل
کوئی دنیا میں سخن کا قدرداں ملتا نہیں
- کتاب : ریاض اکبر: اصلی دیوان اکبر (Pg. 43)
- Author : محمد اکبر خاں وارثی
- مطبع : مطبع مجیدی، میرٹھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.