حسینوں میں وہ گل سب سے جدا ہے اپنی رنگت کا
حسینوں میں وہ گل سب سے جدا ہے اپنی رنگت کا
ادا کا ناز کا عشوہ کا شوخی کا شرارت کا
قیامت تک نمونہ ہے ترے انداز قامت کا
قدم کو چومتا پھرتا ہے ہر فتنہ قیامت کا
نگاہیں گرم ہیں خنجر بکف ہیں اور یہ کہتے ہیں
وہ آئے سامنے ارمان ہو جس کو شہادت کا
انہوں نے جان دی اور تو نے مٹی بھی نہ دی ان کو
دیا کیا خوں بہا ظالم شہیدان محبت کا
پس مردن تو مجھ کو قبر میں راحت سے رہنے دو
تمہاری ٹھوکروں سے اڑتا ہے خاکہ قیامت کا
کہیں کا بھی نہ رکھا یار کب کب لے لئے بدلے
ملا کر خاک میں باقی نشاں چھوڑا نہ تربت کا
ملا اب کے تو پوچھوں گا کہ اے آئینہ رو ہم سے
یہ بے پروائیاں کیوں ہیں سبب کیا ہے کدورت کا
وفائیں یاد کر کے وہ بہا جاتے ہیں روز آنسو
رہے گا حشر تک سرسبز سبزہ میری تربت کا
ہرے کپڑے پہن کر پھر نہ جانا یار گلشن میں
گلوئے شاخ گل سے خون ٹپکے گا شہادت کا
ڈبو کر چاہ غم میں کہہ گیا وہ یوسف ثانی
بری ہوتی ہے چاہت پھر نہ لینا نام چاہت کا
کہا اس نے کہ اکبرؔ کس کے عاشق ہو کہا میں نے
تمہاری پیاری عادت کا تمہاری بھولی صورت کا
- کتاب : ریاض اکبر: اصلی دیوان اکبر (Pg. 4)
- Author : محمد اکبر خاں وارثی
- مطبع : مطبع مجیدی، میرٹھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.