نہ زمین روک پائی نہ رکا ہوں آسماں سے
نہ زمین روک پائی نہ رکا ہوں آسماں سے
تری جستجو میں گزرا میں حدود لا مکاں سے
ہے عبث تلاش اس کی ہے فضول یہ بھٹکنا
وہ قریب تر ہے دل سے وہ قریب تر ہے جاں سے
کیا بڑھ کے خیر مقدم اسے سر پہ بھی بٹھایا
جو نسیم صبح آئی ترے صحن گلستاں سے
کوئی تیر طنز پھینکے کہ ملامتوں کے پتھر
نہ ہٹے گا دل ہمارا کبھی تیرے آستاں سے
ادھر آؤ مجھ سے پوچھو کہ تمہیں بتاؤں گا سب
ابھی ہو کے آ رہا ہوں میں جہان کہکشاں سے
اسی دشت امتحاں میں کئی بار ڈگمگایا
کئی بار گل چنے ہیں اسی دشت امتحاں سے
ہوں اسی لئے مقید میں بدن کی سرحدوں میں
کہیں پھنک نہ جائے عالم مری سوزش نہاں سے
وہی ایک جیسے منظر وہی صبح و شام پیہم
مجھے ہو گئی ہے وحشت گل و برگ و باغباں سے
لہو دل کو جب کیا ہے تو مجیبؔ کچھ کہا ہے
مرے شعر کیا ہیں پوچھو کسی صاحب بیاں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.