حساب ہستی کو کچھ نہ پوچھو جو ایک دکھ ہے تو اک ہنسی بھی
حساب ہستی کو کچھ نہ پوچھو جو ایک دکھ ہے تو اک ہنسی بھی
عجیب عالم ہے دل کا عالم کہ موت بھی ہے یہ زندگی بھی
خیال بن بن کے آنے والے بہار بن بن کے جانے والے
خبر تو لے آبروئے دل کی کہ جا رہی ہے رہی سہی بھی
چلے تو کیسے چلے یہ افسوں بنے تو پھر بات یہ بنے کیوں
وہی تو ہے مدعائے اصلی جو دل کا میرے ہے مدعی بھی
نظر نظر سے ملا رہا ہے ، سرور سا دل کو آرہا ہے
کوئی یہ مستی میں گا رہا ہے خودی سے پیدا ہے بیخودی بھی
نہ دل ہے میرا نہ جان میری نہ ہستی بے نشان میری
سنائی تو میں نے یہ کہاں مگر کہیں آپ نے سنی بھی
- کتاب : جبر مختار (Pg. 179)
- Author : مختار سبزواری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.