وہیں سے ابتدا ہوتی ہے اصلِ نور عرفاں کی
وہیں سے ابتدا ہوتی ہے اصلِ نور عرفاں کی
امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں جہاں جا کر ہر انساں کی
کھلیں آنکھیں تو عالم دوسرا ہی کچھ نظر آیا
اجل تعبیر نکلی زیست کے خواب پریشاں کی
کہا اس طرح رازِ دردِ دل کوئی نہ کچھ سمجھا
حقیقت آشکارا ہم نے کیا کی اور پنہاں کی
مرا ذمہ نہ ہو بیتاب خود تیرے لیے بخشش
ذرا اشکوں سے دھولے یہ سیاہی دل کے داماں کی
مٹا ڈالی اجل نے آج یہ مختارؔ کی ہستی
وہ تھی اک بولتی تصویر گویا یاس و حرماں کی
- کتاب : جبر مختار (Pg. 88)
- Author : مختار سبزواری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.