آرام سے ہے کون جہانِ خراب میں
آرام سے ہے کون جہانِ خراب میں
گل سینہ چاک اور صبا اضطراب میں
سب اس میں محو اور وہ سب سے علیحدہ
آئینہ میں ہے آب نہ آئینہ آب میں
مرنے کے بعد بھی کہیں شاید پتہ لگے
کھویا ہے ہم نے آپ کو عہد شباب میں
وہ قطرہ ہوں کہ موجۂ دریا میں گم ہوا
وہ سایہ ہوں کہ محو ہوا آفتاب میں
بوسے کئے قبول تو گنتی بھی چھوڑ دو
ایسا نہ ہو کہیں پڑے جھگڑا حساب میں
آخر جہان میں شب تاریک بھی تو ہے
اچھا نہ آئیں آپ شب ماہتاب میں
معنی کی فکر چاہیے صورت سے کیا حصول
کیا فائدہ ہے موج اگر ہے سراب میں
لڑتی نہ جائے آنکھ جو ساقی سے شیفتہؔ
ہم کو تو خاک لطف نہ آئے شراب میں
- کتاب : Asli Guldasta-e-Qawwali (Pg. 27)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.