Font by Mehr Nastaliq Web

نہ گل ہیں اور نہ غنچے ہیں صبا کے

مزیب اکبرآبادی

نہ گل ہیں اور نہ غنچے ہیں صبا کے

مزیب اکبرآبادی

نہ گل ہیں اور نہ غنچے ہیں صبا کے

یہ سب ہیں دیکھنے والے ہَوا کے

بلاتے ہیں جو وہ قسمیں دلا کے

نتیجے ہیں مری آہ رسا کے

سوئے زاہد وہ بولے ہاتھ اٹھا کے

بہت ایسےبھی ہیں بندے خدا کے

کھنچانقشہ نہ تیرا اے پریرو

اڑے بہزاد اور مانی کے خاکے

صفت چوٹی کی سن کر وہ یہ بولے

بنانے والے ہو تم بھی بلا کے

ہمیشہ توڑ جوڑوں سے لیا کام

ملایا دل کو آنکھ ان سے لڑا کے

میرے خط کا جواب اس نے یہ لکھا

پیام اب آئے ہیں شاید قضا کے

گرا نظروں سے ہم چشموں کی پل میں

نہ دیکھا جس کو تم نے آنکھ اٹھا کے

بگڑتا کیا ہے یاں آنے میں ان کا

چلے جاتے ہیں دو باتیں بنا کے

کسی کے بیٹھنے کا ہائے انداز

وہ شرما کے لجا کے کچھ چھپا کے

مزیبؔ کو نہیں فکرِ سخن اب

کہا ہے کچھ یہ کہنے سے فضا کے

مأخذ :

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے