دم آخر مصیبت کاٹ دو بحر خدا میری
دم آخر مصیبت کاٹ دو بحر خدا میری
تم آ کر درد کے پردے میں کر جاؤ دوا میری
محبت بت کدے میں چل کے اس کا فیصلہ کر دے
خدا میرا خدا میرا ہے یا یہ مورت ہے خدا میری
یہاں سے جب گئی تھی تب اثر پر خار کھائے تھی
وہاں سے پھول برساتی ہوئی پلٹی دعا میری
مقید ہو کے لطف ہستئ آزاد بھی کھویا
وہ کیا تھی ابتدا میری وہ کیا تھی انتہا میری
میان حشر میں یہ کافر بہت اترائے پھرتے ہیں
مزا آ جائے ایسے میں اگر سن لے خدا میری
کسی کا جلوۂ رنگیں یہ کہتا ہے انہیں پوجو
یہ اس پتھر کے بت ہیں جس پہ پستی تھی حنا میری
نہ جانے کون سے یوسف کا جلوہ مجھ میں پنہاں ہے
زلیخا آج تک کرتی ہے مضطرؔ التجا میری
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 75)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.