باغ سے دور خزاں سر جو ٹپکتا نکلا
باغ سے دور خزاں سر جو ٹپکتا نکلا
قلب بلبل نے یہ جانا میرا کانٹا نکلا
تیرے تیروں کی مدارات میں غفلت نہ ہوئی
چھن گیا قلب تو چھدنے کو کلیجہ نکلا
ڈوب جانے کی ہدایت جو کبھی موج نے دی
آنکھ دینے کو حباب لب دریا نکلا
آتش سوز محبت نے جلایا تھا جسے
وہ کلیجہ تیرے پانی سے بھی ٹھنڈا نکلا
جان پاتے ہی قیامت میں تیری یاد آئی
میرا لاشہ مری تربت سے تڑپتا نکلا
جاتے جاتے بھی بڑا ساتھ نباہا مضطرؔ
تیر کے ساتھ ہی سینے سے کلیجہ نکلا
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 77)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.