طبیعت جو صبر آزما ہو گئی
طبیعت جو صبر آزما ہو گئی
جفا رفتہ رفتہ وفا ہو گئی
لگاتے ہی دل مجھ کو مرنا پڑا
مری ابتدا انتہا ہو گئی
بنے جب سے دشمن کا تم لطف زیست
مری زندگی بے مزا ہو گئی
نمونہ ہوں میں دہر کے حال کا
خدائی مرا ماجرا ہو گئی
نظر جب سے تیری پھری بے وفا
مقدر کی گردش سوا ہو گئی
لگے ہر طرف ہیں شہیدوں کے ڈھیر
کسی کی گلی کربلا ہو گئی
ادھر موت سے اس نے کچھ کہہ دیا
ادھر زندگی بے وفا ہو گئی
بتوں کے لیے سب جلے آگ میں
جہنم پہ جنت فدا ہو گئی
عزیزوں سے امید مضطرؔ فضول
توقع کی دنیا فنا ہو گئی
- کتاب : خرمن حصہ ۱ (Pg. 244)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.